نمازی کے سامنے سے گزرنا کیسا ہے؟

نمازی کے سامنے سے گزرنا کیسا ہے؟

ایک کتاب نگاہ سے گزری ہے بغداد سے مدینہ تک اس کے صفحہ108 پر ہے جو لوگ فرض نماز کے بعد سنتیں یا نفل پڑھتے ہیں ان کے سامنے سے لوگ گزرتے ہیں حرمین کی دونوں مسجدوں کا یہی حال ہے اسکو نہ کوئی برا مانتا ہے نہ کوئی روکتا ٹوکتا ہے لیکن اب پاکستانیوں نے یہ جدت(بدعت) کی ہے کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے وقت ان کے سامنے سے اگر کوئی گزرتا ہے تو اسے روکتے ہیں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب:نمازی کے سامنے سے گزرنا ہرگزجائز نہیں ہےاس میں بہت سخت گناہ ہےحدیث شریف میں ہے لویعلم المار بین یدی المصلی ماذاعلیہ لکان  ان یقف اربعین خیرا لہ من ان یمر بین یدیہ قال ابو النضر لاادری قال اربعین یوما او شھرا اوسنۃ یعنی اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لیتا کہ اس میں کتنا گناہ ہے تو چالیس دن تک کھڑے رہنے کو بہتر جانتا راوی کہتے ہیں میں نہیں جانتا کے نبی پاک ﷺ نے چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس برس فرمایا ہے (مسلم شریف جلد اول صفحہ197) اس حدیث کے تحت حضرت امام اجل امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں معناہ لو یعلم ماعلیہ من الاثم الاختار الوقوف اربعین علی ارتکاب ذلک الاثم و معنی الحدیث النھی لاکیدو الوعید الشدید فی ذلک یعنی اگر گزرنے والا جانتا اس پر کتنا گناہ ہے تو اس گناہ کے کرنے پر چالیس دن چالیس مہینے چالیس سال کھڑے رہنے کو پسند کرتا خلاصہ حدیث یہ کے گزرنے والوں کو نہایت تاکید کے ساتھ گزرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے لیے اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں (نوی مع مسلم جلد اول صفحہ 197) 

لہذا جو نمازی کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں چاہے وہ فرض نماز پڑھ رہا ہو یو سنتیں یا نفل وہ سخت گنہگار ہیں اور مسجد نبوی میں جو پاکستانی لوگوں کو گزرنے سے روکتے ہیں وہ عین شریعت پر عمل کرتے ہیں یہی شرعی حکم ہے بدعت ہرگز نہیں ہے 

البتہ طواف کعبہ کے وقت نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ،لان الطواف صلاۃ فصار کمن بین یدیہ صفوف من المصلین ، ایسا ہی رد المختار جلد اول صفحہ 236 میں ہے واللہ تعالی اعلم

مفتی محمد ربنواز امین چشتی سیالوی