حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ الله علیہ سرکار کی اس عقیدہ شریف

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ الله علیہ سرکار کی اس عقیدہ شریف میں جو حدیث پاک آپ نے پیش فرمائیہے مسند امام احمد بن حنبل سے، اس کے پہلے حصے میں سے صرف دو باتوں کی تھوڑی سی وضاحت۔
 ۔(1)   مدت (2) چکی سے مراد 
1۔ مدت
(یہ37 سال کی کب شروع ہوگی)
مسند امام احمد بن حنبل میں پانچ جگہ یہ روایت موجود ہے کہ اسلام کی چکی چلتی رہے گی 35 سال یا 36 یا 37 سال (مسند امام احمد بن حنبل
3707،3730،3731،3758، 4315۔)

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس سے مراد ہجری سال ہیں تو پھر اس لحاظ سے تو حضرت مولا علی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی مدت بھی شامل نہ ہو سکے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ بعد والا عرصہ شمار ہو گا تو پھر مولا علی سرکار کی خلافت کی مدت بھی اسی میں ہے اور بقول شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ پانچ سال حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ تعالی عنہ کی خلافت بھی اسی میں آ رہی ہے۔


جیسے دوسری حدیث شریف میں ہے:
(خِلافةُ النُّبُوَّةِ ثَلاثُونَ سَنَةً )
(ابو داؤد شریف حدیث:4646
حدیث: 4647)
نبوت کی خلافت 30 سال ہوگی۔
اور ایک حدیث پاک میں ہے میرے بعد خلافت 30 سال ہوگی۔

تو اگر رسول الله صلی اللہُ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وصالِ پاک کے بعد کے 30 سال شمار ہوں گے تبھی حضرت مولا علی سرکار کی خلافت بھی اس میں شامل ہوتی ہے
اور اگر کوئی یوں کہے کہ نہیں 30 ہجری اس سے مراد ہے 
تو پھر مولا علی سرکار کی خلافت کی مدت 30 ہجری کے بعد شروع ہوئی تو وہ اس حدیثِ مبارکہ کی رو سے خلافت میں شمار نہ ہو گی جو کہ سرا سر غلط ہے۔
تو معلوم ہوا کہ یہ جو حدیثِ مبارکہ مسند میں ہے ۔
اسلام کی چکی والی اس میں جو 35 یا 36 یا 37 سال کا ذکر ہے یہ بھی رسول الله صلی اللہُ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد شمار ہوں گے۔


اور
2۔ (اسلام کی چکی سے کیا مراد ہے)

حافظ ابنِ حجر علیہ الرحمہ فتح الباری میں امام خطابی علیہ الرحمہ کا قول ذکر فرماتے ہیں کہ
 اسلام کی چکی سے جو مراد ہے ، وہ جنگ کی طرف اشارہ ہے اور تشبیہ دی گئی ہے جیسے چکی میں دانے پس جاتے ہیں اسی طرح اسلام کی جنگ کفر کے خلاف ہوتی ہے اس میں کفر مٹ جاتا ہے ۔
اور اس سے مراد دین ہے۔
یعنی جیسے چکی چلتی ہے تو دانے پس کر آٹا بن جاتا ہے،
 اسی طرح اسلام کی ترقی جہاد سے ہوتی ہے اور جہاد کے چلتے ہوئے کفر مٹ جاتا ہے اور صرف دین ہی دین رہ جاتا ہے۔

اور آپ نے اس حدیثِ مبارکہ کے آگے کچھ لفظ ہیں ان کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یوں فرمایا کہ اس میں تشبیہ دے کر اشارہ 
فرمایا ہے بنو امیہ کی مدت ملک میں۔
پھر کچھ عبارت ذکر فرماتے ہیں کہ 
حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ تعالی عنہ پر لوگوں کا جمع ہونا 41 ہجری میں۔

فتح الباری جلد نمبر 23 صفحہ 422۔
حدیث نمبر 7222 اور 7223.

اور پھر حافظ ابنِ حجر  نے حضرت خطیب بغدادی کا قول ذکر فرمایا۔
اس حدیث میں اشارہ ہے مدت خلافت کے ختم ہونے کا اور جو اس حدیث میں لفظ ہیں کہ؛( ان کا دین قائم ہوگا ) یعنی ان کا ملک اور اس وقت سے جب لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر جمع ہوئے.
فتح الباری جلد 23 صفحہ نمبر 422 حدیث نمبر 7222 حدیث نمبر 7223

یہاں پر ضروری ہے کہ ایک مثال ذکر کر دیں اسلام کی چکی سے مراد کیا ہے اور کون لوگ ہیں اور اس کا ظہور کیا ہے سب سمجھ آ جائے گا۔

44 ہجری میں حضرت مھلب بن ابی صفرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ جو تابعی ہیں۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں
جہاد فرماتے ہوئے کابل اور پھر ملتان کو فتح کیا اور دیگر علاقوں سے ہوتے ہوئے لاہور آئے پھر اس کو فتح کیا
 اور اللہُ تبارک و تعالیٰ جل شانہ نے ان کے دشمنوں کو مغلوب کیا اور ان کی رب تعالیٰ جل شانہ نے مدد فرمائی اور انہیں فتح عطا فرمائی ۔
تاریخِ دمشق جلد نمبر 61 صفحہ نمبر 289۔

اور ان علاقوں کی فتح وغیرہ کا ذکر امام الانبیاء صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل میں ایک حدیثِ پاک ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل صادق ، اللہُ تعالیٰ کے رسول صلی اللہُ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت جائے گی سندھ اور ہند کی طرف۔
(مسند امام احمد بن حنبل ، حدیث نمبر: 8808)

(البدایہ والنہایہ ،جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 15ذکر قتال الہند و الترک۔)
اور اسی طرح مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وعدہ فرمایا الله کے رسول صلی اللہُ علیہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کا ۔
(مسند امام احمد بن حنبل
حدیث 7128، البدایہ والنہایہ جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 15 ذکر قتال الہند و الترک۔)

اور اسی طرح البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے غزوہ ہند 44 ہجری میں کیا ہے حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کے دور میں۔

اسی میں یہ بلادِ سندھ چین تک یہ سارا جو علاقہ تھا ہند وغیرہ انہوں نے فتح فرمایا ہے۔
(البدایہ والنہایہ جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 15 ذکر قتال الہند و الترک۔)

تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ 37 سال جو چکی چلتی رہی اسلام کی وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں اسلام کا پھیلنا مراد تھا۔
 جیسا کہ یہ۔ برصغیر ۔کابل ۔سندھ چین ۔تک سب فتح ہوا 44 ہجری میں۔ 

اللہ تبارک و تعالی جل شانہ ہم سب کو محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور اہل بیت کے ساتھ پکی سچی محبت عطا فرمائے۔

حسنیت زندہ باد حسینیت زندہ باد 


آستانہ عالیہ سیال شریف کے بزرگوں کی غیرت ایمانی۔

آستانہ عالیہ سیال شریف کے بزرگوں کی غیرت ایمانی۔

حضور خواجہ شمس الدین شمس العارفین رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مرشد پاک شاہ سلیمان تونسوی رحمہ اللہُ تعالیٰ نے غیرت ایمانی کی وراثت سے آپ کو نوازا تو سب سے پہلے حضرت شاہ سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ سرکار کی غیرت ایمانی آپ ملاحظہ فرمائیں۔

شاہ سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ غیرت ایمانی کی وجہ سے آپ نے اس شخص سے فرمایا۔
(تو فرنگیاں را تیر نمی زنی۔)
 فرنگیوں کو تیر کیوں نہیں مارتا۔
اس شخص نے عرض کیا حضور قدرت نہیں رکھتا ہوں آپ میری مدد فرمائیں۔
آپ نے فرمایا۔
(فارسی شعر)
کماں نرم باید کماندار چست۔
وقت کشیدن در آید درست۔
کمان نرم اور کمان والا چست ہونا چاہیے تاکہ کھینچتے وقت درست ہوسکے ۔
المصطفیٰ والمرتضی صفحہ
493۔

حضرت شاہ سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ انگریز کی ملازمت کو نا پسند فرماتے تھے ۔
آپ کا مشہور مقولہ تھا۔
(فارسی)
اگر فرشتہ باشد چوں در معاملہ سرکار افتد دیو شود۔
انسان اگرچہ فرشتہ (صفت) ہو جب ملازمت میں پڑھتا ہے تو شیطان بن جاتا ہے.
ان کا یہ نظریہ تھا کہ نوکری اللہ تعالی کی ہونی چاہیے سرکار کی نہیں۔
 آپ دراصل مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے بچانا چاہتے تھے۔

لارڈ میکالے کے فکری انداز کو وہ بھانپ چکے تھے لہٰذا اسلامی علوم کی احیاء کی کوششیں پوری قوت سے کی گئیں اور مسلمان عوام کو پوری طاقت سے اسلام کی طرف بلایا گیا۔
المصطفٰی والمرتضی صفحہ نمبر 493۔
تو آپ بتائیں کہ حضور شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کس قدر دشمن تھے انگریزی تہذیب اور تعلیم وغیرہ کے۔
 اور خصوصاََ سکول کے بانی لارڈ میکالے کے ارادوں کو تو جان کر مسلمانوں کو اتنا خبردار فرمایا ۔
تو آج کوئی لارڈمیکالے کے نصاب پڑھ کے خود کو چشتی کہلائے یا آپ کے ساتھ نسبت جتلانے کی کوشش کرے وہ پہلے یہ جان لے کہ شاہ سلیمان تونسوی رحمت اللہ علیہ لارڈمیکالے کے کتنے بڑے دشمن ہیں۔

صحبت کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا۔
(فارسی اگرچہ) اگرچہ در صحبت ایشاں نعیم دنیوی موجود شوند ہرگز اختیار نہ کند بلکہ گرسنگی برہنگی گذران بہترست۔
بد مذہبوں کی صحبت میں اگرچہ دنیاوی فوائد ہی کیوں نہ ہو ان سے ہرگز میل جول نہ رکھے بلکہ بھوکا اور ننگا رہنا ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہے۔
نافع السالکین ۔صفحہ 53۔
المصطفی والمرتضی۔صفحہ ۔394.
یہی فیضان تھا حضور خواجہ شمس الدین شمس العارفین رحمۃ اللہ علیہ میں اپنے مرشدِ گرامی کا کہ آپ میں غیرتِ ایمانی کا یہ عالم تھا۔
آپ انگریز کے سخت دشمن تھے اور بطورِ فخر فرمایا کرتے تھے کہ خدا نے میری انکھوں کو انگریز کی دید تک سے محفوظ رکھا۔
 
فوز المقال فی خلفائے پیر سیال۔
جلد 1 صفحہ  59.

حضرت خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں کئی ایسے مواقع پیش آئے جبکہ آپ کی نظر اطہر انگریز پر پڑھ سکتی تھی لیکن خدا نے بچا لیا ایک بار اطلاع ملی کہ ایک بڑا انگریز آفیسر اس علاقے کا دورہ کرتا ہوا سیال شریف پہنچ چکا ہے اور حضرت سے ملاقات کا شوق ظاہر کر رہا ہے اور باریاب ہوا ہی چاہتا ہے؛
 حضرت یہ سن کر ذرا سیمہ ہو گئے۔
 اور قلبی تاثرات منافرت سے فرمایا۔
 کیوں آ رہا ہے وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا ظاہر ہے ۔
حضرتِ اقدس و اعلیٰ ان واصلین بااللہ میں سے تھے جن کی نسبت حدیث شریف میں وارد ہے۔
لو اقسم علی اللہ لابرہ۔
الله تعالٰی کے بندوں میں سے وہ کامل بندہ جب اللہُ تعالی پر قسم کھا لے تو اللہُ تعالی اسے ضرور پورا فرماتا ہے ۔
یہ حدیث مسلم شریف کی ہے حدیث نمبر 1675
اور بخاری شریف میں اس طرح ہے۔
(إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ )
(صحیح بخاری۔
حدیث 2703۔حدیث4500۔حدیث 4611)
ترجمہ۔بے شک اللہ تعالی کے بندوں میں سے کچھ ایسے بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالی جل شانہ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالی اسے ضرور پورا فرماتا ہے۔

لسان تاثیر سے نکلے ہوئے الفاظ میں انگریز کے ارادے کو دفعتاً بدل کر رکھ دیا اور در فیض اثر سے پھر کبھی آنے کا حیلہ کر کے ۔(یعنی کہا پھر کبھی آؤں گا)خدا جانے کیوں واپس ہو گیا۔
فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد 1 صفحہ 59.

حضرت شیر ربانی شیر محمد شرق پوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ شمس ال رفیین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر درد بھرے الفاظ میں فرماتے کہ وہ انگریزوں کے اندر بھی رہے اور انگریزوں سے باہر بھی یعنی باوجودیکہ انگریزی حکومت کے اندر تھے لیکن حکومت انگریزی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
گویا کہ ان کی حکومت سے باہر تھے۔
فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد 1 صفحہ 59 اور 60

اور حضور خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ۔
کی غیرت ایمانی کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگائیں۔
جب انگریزوں نے ایک دفعہ کابل پر حملہ کیا تو ملکہ وکٹوریہ کا زمانہ تھا آپ اپنے حجرہ کے شمالی دروازے تک جاتے اور بڑے غضب ناک ہو کر فرماتے جد پٹھان تلوار اٹھائیسی رن لندن وچ گھگھرے وچ پئی متریسی۔

یعنی حملہ کابل میں ہو رہا تھا مسلمانوں پر اور آپ یہاں بے چین تھے۔
فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد 1 صفحہ 60 

حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان آپ کے نائب آپ کے صاحبزادہ حضرت خواجہ محمد الدین ثانی سیالوی رحمۃ اللہ علیہ میں موجود تھا۔
آپ نے انگریز دشمنی کی روایات کو مزید جلا بخشی جس کے نتیجے میں آپ کی اولاد امجاد نے ہر میدان میں انگریز کی مخالفت کو اپنا طرۂ امتیاز بنایا۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 530 ۔
اور یہی فیضان تھا حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرکار میں کہ آپ کی غیرت ایمانی کا یہ عالم تھا۔
حکومت برطانیہ کے وہ ملازمین جو دربار سدا بہار سیال شریف سے وابستہ تھے آپ نے ان سے نذرانے قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 537۔

حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمت اللہ علیہ نے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ کوئی مسلمان انگریزوں کی فوج میں بھرتی نہ ہو۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 537۔
آپ بڑے زمیندار تھے مگر ساری عمر انگریزوں کو اپنی اراضی یعنی زمین کا مالیہ یعنی ٹیکس نہیں دیا۔ 
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 537۔
انگریز حکومت کے کسی مسلمان ملازم نے لنگر شریف میں کھانا کھا لیا تو آپ نے وہ برتن توڑ دینے کا حکم صادر فرمایا ۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 539۔
ایک فوجی ملازم نے حضرت خواجہ ضیاء الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی پسندیدہ گھوڑی کی پشت پر ہاتھ پھیر دیا تو فرمایا اب یہ ہمارے استعمال کے قابل نہیں رہی اس کی پشت کو فرنگی کے ملازم کا ہاتھ لگ گیا ہے۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 539۔

حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمت اللہ علیہ کی طرف سے اعلان۔
کہ جو شخص فوج اور پولیس میں ملازم ہو تو اس سے فقیر کا کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کو فقیر سے کوئی تعلق ہونا چاہیے۔ یہ میں نہیں کہتا کہ وہ ملازمت چھوڑ دیں یا نہ چھوڑیں۔ یہ ان کے ضمیر اور ایمان پر چھوڑا گیا ہے اور آئندہ کوئی فوجی اور پولیس مین کوئی نذرانہ کسی قسم کا فقیر کو پیش نہ کرے کیونکہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس بنا پر کے اللہ تعالی جل شانہ کا قول ہے۔
وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-
ترجمہ اور جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔سورہ مائدہ آیت نمبر 51۔
اور چاہیے کہ کوئی آدمی فوجی ہو یا پولیس کا فقیر سے بیعت نہ کرے کیونکہ اس کو بیعت نہ کیا جاوے گا اس بنا پر کہ اللہ تعالی جل شانہ کا قول ہے۔
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ۔
سورہ زمر آیت نمبر 29۔
ترجمہ اللہ تعالی جل شانہ مثال ارشاد فرماتا ہے کہ ایک غلام کے کئی آقا بد اخلاق شریک ہوں۔

یعنی خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمت اللہ علیہ سرکار فرما رہے تھے کہ جو انگریز کی غلامی قبول کر لے ۔
اسے چاہیے کہ وہ حق والوں کی طرف نہ آئے چونکہ زیادہ اپنے آقا بنانے یہ کافروں اور منافقوں کا کام ہے مومن اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی جل شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اطاعت گزار ہوتا ہے اور ہر اس کامل کی اطاعت کر سکتا ہے جو اللہ تعالی جل شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ہوں اور اطاعت سکھاتے ہوں۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 59 بحوالہ اعلان واجب الاذعان صفحہ نمبر 14۔
حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرکار کس قدر غیرت ایمانی رکھتے تھے ایک انگریز سپریڈنٹ پولیس کی رپورٹ جو کہ طویل ہے جو اسے پڑھنا چاہے اور المصطفیٰ والمرتضی صفحہ نمبر پانچ سے لے کر صفحہ نمبر 563 تک ضرور مطالعہ کرے 
 
انگریز اور اس کے انداز زندگی سے اہل اللہ کو نفرت تھی حضرت گولڑوی بھی اسی نفرت میں شریک تھے ان کے مرشد خانہ سیال شریف میں کوئی انگریزی سکول انگریز کے پورے دور میں قائم نہیں ہوا سیدنا مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ نے بھی اسی روایت کو نبھایا اور اپنے خاندان کے بچوں کو انگریزی تعلیم نہیں دلوائی۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 564 بحوالہ مہر منیر۔

حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ انگریز کو دیکھنا بھی پسند نہ فرماتے۔ انوار قمریہ جلد نمبر ایک ، صفحہ نمبر 255۔

اور یہی فیضان تھا جو حضور حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمت اللہ علیہ میں۔
کہ آپ کو 
 ہزہولی نس انگریز کی طرف (تقدس مآب )کا خطاب بھیجا گیا تو آپ نے وہ فرمان نامہ آگ میں ڈال دیا.

حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کو انگریزی دشمنی کی وجہ سے انگریزی لباس انگریزی بود و باش اور انگریزی تعلیم سے شدید نفرت تھی انگریز کے دور میں سیال شریف میں کوئی سکول قائم نہیں ہونے دیا۔
المصطفی والمرتضی صفحہ نمبر 592۔

حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ حج کے موقع پر جب مدینہ شریف تشریف لے گئے آپ نے وہاں کچھ اشعار پیش کئے۔
وہ اشعار یہ ہیں فارسی میں۔
۔۔(1)اے شاہ خیر البشر اب لے خبر ہند کی شتاب۔
قوم انگلش ہم جو کشمش خوردۂ و کردہ خراب۔
..(2)بھیج دو فاروق اعظم یا کہ خالد سیف حق۔
یا نما ہر سال فارغ بال حیدر بو تراب ۔
..(3)قوم مسلم وہن کی علت میں ہے اب مبتلا ۔
اسقنا کاسا شفاء من لدنک یا سحاب۔
..(4)عقل مسلم کی ہوئی گم اس سر ایسا پھرا۔
 نیک را بدمے شمار و قبح را صواب۔
یا الہی بخش دے ہم کو ضیاء ۔۔(5)شمس دیں سرخرو باشیم و شاداں پیش تو یوم الحساب۔
انوار قمریہ جلد نمبر ایک صفحہ نمبر 169 

اب ان اشعار کا ترجمہ پڑھیں ۔
۔۔(1)اے سب انسانوں سے بہتر ہمارے آقا اب ہند کی خبر جلدی لیجئے۔
قوم انگلش کے چکر میں راکھ کی طرح جلی ہوئی اور خود کو خراب کر چکی ہے۔

..(2)بھیج دو فاروق اعظم کو یا حضرت خالد بن ولید کو جو حق کی تلوار ہیں۔
یا بھیج دیجئے حضرت مولا علی ابو تراب رضی اللہ تعالی عنہ کو۔

۔۔(3)مسلمان قوم سستی کی وجہ سے فتنوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔
اے سخی ہمارے کاسوں کو اپنی بارگاہ کی مے سے شفائے رحمت سے بھر دے۔

..(4)مسلمانوں کی عقل ایسی گم ہوئی ان کا سر ایسا پھرا۔
نیک کو بد شمار کرتے ہیں اور برے کو ثواب شمار کرتے ہیں۔
..(5)اے اللہ تعالی بخش دے ہم کو حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان۔
تاکہ کامیاب اور خوش ہو سکیں ہم قیامت کے دن تیرے سامنے۔
یعنی اے اللہ جس طرح خواجہ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ کی غیرت ایمانی تھی اپ انگریز اور انگریزی اور ہر دشمن دین سے نفرت فرماتے تھے ہمیں بھی اسی طرح عطا فرما تاکہ ہم قیامت کے دن تیری بارگاہ میں کامیابی کے ساتھ حاضر ہوں۔

اے اللہ تعالیٰ !
ہم سب کو غیرت ایمانی عطا فرما ہمیں دین کے دشمنوں اور ہمارے رب تعالی اور ہمارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دشمنوں سے نفرت عطا فرما اور رب تعالی جل شانہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے محبت عطا فرما ہمیں ایمان کے خزانے کے ساتھ دنیا سے رخصتی عطا فرمانا۔


ﺍﻭّﻝ ﺟﯿﺶ ﻣﻦ ﺍﻣﺘّﯽ ﯾﻐﺰﻭﻥ ﺍﻟﺒﺤﺮ ﻗﺪﺍﻭﺟﺒﻮﺍ

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ﺍﻭّﻝ ﺟﯿﺶ ﻣﻦ ﺍﻣﺘّﯽ ﯾﻐﺰﻭﻥ ﺍﻟﺒﺤﺮ ﻗﺪﺍﻭﺟﺒﻮﺍ
"ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻓﻮﺝ ﺟﻮ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ گئی ہے"
صحیح بخاری:2924) (ابن ماجہ:2776)
صحیح بخاری:2788) (صحیح بخاری:2789)
(صحیح بخاری:2799) (صحیح بخاری:2800)
(صحیح بخاری:2877)  (صحیح بخاری:2878)
(صحیح بخاری:2924) (صحیح بخاری:6282)
(صحیح بخاری:6283) (صحیح بخاری:7002)
(ترمزی:1645) (ابو داؤد:2490) (نسائی:3173)
(نسائی:3174) (مسند احمد:4837)
(مسند احمد:11993) (سلسلہ صحیحہ:2575)
(صحیح مسلم:4935) (صحیح مسلم:4934)

مشکوٰۃ المصابیح:5859) (مستدرک حاکم:8668)